ماہرین موسمیات کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے حکومت اور شہریوں کی جانب سے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو ہیٹ ویوز اور گرم موسم کے نتائج مزید خطرناک ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں شدید گرم موسم، مسلسل آنے والی ہیٹ ویوز کی کیا وجوہات ہیں، انسانوں پر اس کے پڑنے والے مضر اثرات اور ان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ اس کیلیے ایس بی ایس اردو نے ماہر موسمیات، ڈاکٹر اور ماحول دوست رضاکار سے بات چیت کی ہے جن کے مفید مشوروں سے عام شہری بھی استفادہ حاصل کرتے ہوئے شدید گرم موسم کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق کسی بھی علاقے کے ماہانہ درجہ حرارت معمول سے پانچ یا اس سے زائد سینٹی گریڈ بڑھنے لگے تو وہ ہیٹ ویو میں شمار ہوتا ہے۔ گلوبل وارمنگ بڑھنے کی صورت میں درجہ حرارت میں اضافہ سامنے آرہا ہے۔ گزشتہ برس عالمی درجہ حرارت بھی 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے جس کے اثرات پاکستان میں واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق فوسل فیول، کوئلہ اور قدرتی گیس کلائمنٹ چینج کی اہم وجوہات ہیں پاکستان کو ان تینوں کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے متبادل انرجیز جیسے کہ سولر، ونڈ ، ٹائیڈل اور پانی کے ذریعے اپنانے ہوں گے۔
The year 2023, which has been the hottest year in human history, has not been spared from its effects. Credit: Ehsan Khan
ڈاکٹر سعید خان ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ انفکیشن ڈیزیز کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر سعید خان کے مطابق دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں جس کے براہ راست منفی اثرات انسانوں پر پڑ رہے ہیں، بیماریوں کے ساتھ ساتھ سیلاب، قحط کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
Chief Meteorologist of Pakistan Meteorological Department, Dr. Sardar Sarfaraz says that if any area's monthly temperature starts to increase by five or more degrees Celsius than normal, it is considered a heat wave. Source: Supplied / Ehsan khan
ہیٹ ویو اس کے اثرات سے انکار ممکن نہیں اس مشکل صورتحال میں بھی کچھ ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت ان مشکلات سے لڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں ایک ایسے ہی رضا کار غلام رسول جن کا تعلق پنجاب کے شہر پاک پتن سے ہے، غلام رسول مخلتف شہروں اور دیہاتوں میں 16 لاکھ سے زائد درختوں کی پلانٹیشن کر چکے ہیں ساتھ ہی سینکٹروں درختوں کو گود بھی لے چکے ہیں۔
Ghulam Rasool has planted more than 1.6 million trees in various cities and villages, and the centers have also adopted trees. Credit: Ehsan Khan
غلام رسول کہتے ہیں کسی بھی علاقے کے لحاظ سے اس کے 25 فیصد ایریا پر درختوں کا ہونا لازمی ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں کنکریٹ کے پہاڑ بن چکے ہیں حالات یہی رہے تو آئندہ کچھ سالوں کے بعد ان کنکریٹ کے جنگلوں میں زندہ رہنا بھی مشکل ہوجائے گا، غلام رسول کہتے ہیں جتنے بھی موسمی مسائل موجود ہیں سب درختوں کے کٹاؤ کی وجہ سے ہو رہا ہے ، گرمی کے موسم میں انتہائی گرم موسم کے باعث اموات ہوتی ہیں، خشک سالی سے بھی اموات بڑھ رہی ہیں جبکہ شدید بارشوں سے تباہی اور اموات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں، یہ ماحولیاتی تباہی نہیں تو اور کیا ہے ؟
(ایس بی ایس اردو کیلیے یہ رپورٹ پاکستان سے احسان خان نے پیش کی ہے۔)