سڈنی کی ایک خاتون نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ شہر کے مغربی نواحی علاقے کے ایک گودام میں پرانے یونیفارم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
جیساکہ مقامی رضاکار خاتون لیلی واٹ نے بتایا یہ سب ایک چھوٹی تنظیم کی کوششوں کا نتیجہ ہے جو ایک بڑے مشن پر ہے۔ لیلی یہی رہتی ہیں اور گزشتہ برس ہی انہوں نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور کافی خوش ہیں کہ انہیں اپنا پرانا یونیفارم بہتر انداز میں استعمال کرنے کا موقع ملا۔
ایسی ہی ہزاروں پرانے یونیفارمز کو ریسائیکل کرنے کا کام کر رہی ہے یہاں کی مقامی تنظیم وورن اپ۔ یہ تنظیم پرانے کپڑے سے فرنیچر بنانے کا کام لے رہی ہے۔ اس تنظیم کی بانی مرے فلر کے بقول آسٹریلیا بھر میں قریب 9000 اسکولوں کے ذریعے ان تک خام مال کی فراہمی کے امکانات خاصے زیادہ ہیں۔
اس ادارے کی شریک بانی اینی تھومپسن نے بتایا کہ پرانے یونیفارم کے ڈھیر بڑھتے جارہے ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق ان اسکولوں سے ہر سال قریب 2000 ٹن غیر ضروری اشیاء کوڑے کے ڈھیر تک پہنچ رہی ہیں۔ آسٹریلیا میں سالانہ بنیادون قریب 1.4 ارب لباس تیار کیے جارہے ہیں جو قریب ساڑھے تین لاکھ ٹن کے برابر وزن کے حامل ہیں۔
یہ سب اعداد و شمار ذہن میں لے کر وورن اپ نے پرانے یونیفارمز سے فرنیچر بنانے کا منصوبہ بنایا۔ پرانے یونیفارمز کو دیگر مواد کے ساتھ تیز دباو کے ذریعے یکجا کرکے رنگا رنگ فرنیچر تیار کیا جارہا ہے۔
محترمہ تھامپسن ماسٹرز ڈگری کے سلسلے میں پائیدار ترقی کے مضمون کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ ان کے بقول وورن اپ کا خیال انہیں اسکول کے زمانے میں آیا تھا۔
آسٹریلیا کی سائینسی تنظیم CSIRO کی جانب سے بھی اس منصوبے کو مکمل معاونت حاصل ہے۔ اس ادارے کی مینیجر میگن سیبن کے بقول سال 2022 سے اس منصوبے پر کام کیا جارہا ہے۔
وورن اپ تنظیم کے شوروم میں آپ کو رنگا رنگ فرنیچر اور دیگر اشیاء دیکھنے کو ملیں گی۔ محترمہ تھامسن کا کہنا ہے کہ اب دیگر طرز کے پرانے یونیفارمز کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
آسٹریلیا انسٹیٹیوٹ کے مطابق ایک شخص اپنی پوری زندگی میں ہر سال کم از کم 56 نئی اشیا خریدتا ہے جس کا مجموعی وزن دو ہزار ٹن کے برابر ہے جو بالآخر کچرے کے ڈھیر میں جمع ہوتے رہتے ہیں۔
ری سائیکلنگ کی ماہر ڈاکٹر نکولا گاروفانون کہتی ہیں کہ اس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
اینی تھامپسن مانتی ہیں ان کی محنت ایک دن ماحول پر خوشگوار تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوگی۔